تعارف

حضور بلبل ہند علیہ الرحمہ : مختصر تعارف

بلبل ہندمفتی اعظم نانپارہ مفتی محمد رجب علی قادری نانپاروی علیہ الرحمہ کی ولادت۲۸؍ رجب المرجب ۱۳۴۳ھ/یکم جنوری ۱۹۲۳ء کو قصبہ نانپارہ ضلع بہرائچ شریف اتر پردیش کے محلہ گھوسی ٹولہ میں ہوئی۔اپنے وطن نانپارہ سے طلب علم کا آغاز کیا اور تفسیر جلالین وسراجی تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۴۰ء میں بریلی شریف پہنچ کر جامعہ رضویہ منظر اسلام میں داخلہ لیااور۱۹۴۶ء میں سندودستار فضیلت سے نوازے گئے۔ حضور مفتی ٔ اعظم ہند علامہ مصطفی رضا نوری علیہ الرحمہ نے اپنے مقدس ہاتھوں سے سر پر دستارفضیلت رکھی۔حضور مفتی ٔ اعظم ہند علیہ الرحمہ آپ پر خاص کرم فرماتے تھے۔ دارالعلوم منظر اسلام کے جملہ اساتذہ آپ پر شفقت فرماتے، مگرخلیفۂ اعلیٰ حضرت حضرت علامہ عبدالعزیز محدث بجنوری علیہ الرحمہ سے خصوصی لگاؤ تھا۔

فراغت کے بعد حضور بلبل ہند علیہ الرحمہ مدرسہ حنفیہ نانپارہ میں درس وتدریس کی خدمت انجام دینے لگے ،پھر ممبئی مسجد مصطفی بازار وکٹوریہ روڈ میں امامت کے لیے تشریف لے گئے ،بعدہٗ تکیہ کی مسجد بیسل پور (پیلی بھیت) کی امامت اور مدرسہ رضویہ میں درس وتدریس کی ذمہ داری قبول کی۔

حضور بلبل ہند نے ۴؍جنوری ۱۹۵۸ء میں تاجدار اہل سنت حضور مفتی ٔ اعظم ہند علامہ مصطفی رضا علیہ الرحمہ اوراپنے استاذ اور پیر ومرشد، خلیفہ اعلیٰ حضرت بدرالطریقہ حضرت علامہ عبدالعزیز محدث بجنوری علیہ الرحمہ کے ناموں کی نسبت سے ‘‘جامعہ عالیہ مصطفویہ مدرسہ عزیز العلوم ’’ کی بنیاد رکھی ۔

تصنیفات وتالیفات :(۱) عزیز العشاق(۲)نگارستان توصیف(۳) گلدستہ عقیدت(۴)نوائے دل(۵)کیفستان محمدت(۶)منظومۂ دل افروز(۷)پیغام قادری (۸) دربارفیض بار حضور پرنور جناب سید سالار رضی اللہ عنہ(۹) انوارالحرمین (۱۰)آثار تنویر(۱۱)معراج مومن( ۱۲) ارغام الفجرہ(۱۳)اہداء الاحیاء الی الاموات (۱۴)بانگ صبح(۱۵) البیان الاقوم فی کمالات سیدنا الغو ث الاعظم رضی اﷲ عنہ(۱۶)رحمۃ الرحمن فی ذکر الامام سیدنا ابی حنیفۃ النعمان رضی اﷲ عنہ(۱۷) الخطب السنیۃ(۱۸)انوارالقمرین (۱۹) انوار طریقت(۲۰)القاء القدس( ۲۱)انتساب الخادم الی الاعاظم والاعالم(۲۲)رد البطلۃ( ۲۳)قوامع السنۃ السنیۃ علی رؤس الرفضۃ الشنیعۃ( ۲۴)الرد الشدید علی الکاذب العنید(۲۵)نصرۃ الرحمن علی مرید الشیطٰن(۲۶)تعلیم الجہال فی امر الہلال

بیعت وخلافت : خلیفہ ٔ اعلیٰ حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث بجنوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کیاپھر مفتی ٔ اعظم ہند علیہ الرحمہ سے طالب ہوئے ۔ان دونوں بزرگوں اور حضرت سعداللہ مکی علیہم الرحمہ نے اجازت وخلافت سے نوازا۔

زندگی بھر سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ نوریہ کے فروغ میں مصروف رہے۔آپ کے مریدین اترپردیش ، مدھیہ پردیش ،مہاراشٹر کے مختلف شہروں ناسک، کان پور، ٹیکم گڑھ، جھانسی، کھرگاپور،جتارہ،کوڑے بھار، سلطان پور وغیرہ میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق مریدین کی تعداد تقریبا پانچ لاکھ تک ہے۔

خلفا : چند مشہور خلفا کے نام یہ ہیں:

(۱)جامع معقولات ومنقولات م حضرت مفتی شبیر حسن رضوی علیہ الرحمہ (۲) حضرت مفتی شمس الدین بہرائچی (۳) محمود ملت حضرت علامہ محمودرضا صاحب سجادہ نشیں خانقاہ عالیہ قادریہ رجبیہ نانپارہ ضلع بہرائچ شریف(۴) حضرت علامہ مفتی امان الرب صاحب (۵)حضرت علامہ مفتی محمد صدیق حسن (۶)حضرت علامہ عبدالمجید مصباحی علیہ الرحمہ(۷)حضرت مفتی محمد شمیم عالم نوری (۸)حضرت مفتی عبدالعزیز صاحب(۹) حضرت مولانا مقبول احمد قادری

وصال : ۳؍ذی الحجہ ۱۴۱۸ھ/یکم اپریل ۱۹۹۸ء بروز بدھ ۱۱؍بج کر ۵۵؍منٹ پروصال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ تیسرے روز جمعہ کی نماز کے بعد سعادت انٹر کالج کے میدان میں ڈیڑھ لاکھ لوگوں نے نماز جنازہ اداکی۔آپ کے جانشین حضرت علامہ محمود رضا صاحب مدظلہ العالی نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ اہل نانپارہ کا بیان ہے، کہ آج تک کسی کے جنازے میں اتنا بڑا مجمع نہیں دیکھاگیا۔ چار بجے شام مدرسہ عزیز العلوم محلہ گھوسی ٹولہ نانپارہ ضلع بہرائچ شریف کے پاس سپردخاک کیاگیا۔